سڈنی حملوں کے بعد آسٹریلیا میں سخت سوشل میڈیا قوانین کے اشارے

5 Friends check their phones

The Job of frontline workers became tougher due to misinformation on racial, cultural, religious grounds. Source: Getty / Getty images/Tim Robberts

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

سڈنی حملے کے بعد سوشل میڈیا پر اس بابت خوفناک اور جعلی ویڈیوز کی بھرمار کے تناظر میں آسٹریلوی حکومت نے غلط معلومات سے متعلق مسودہ قانون کو پھر سے ایجنڈہ میں شامل کر لیا ہے جسے گزشتہ برس ملتوی کر دیا گیا تھا۔


سڈنی کے بونڈائی جنکشن پر گزشتہ ہفتے کے خونریز واقعے نے سب کو خوفزدہ اور حیرت زدہ کر رکھا ہے تاہم اس بابت سوشل میڈیا پر جعلی اور بھیانک ویڈیوز نے یہ سب مواد وہاں سے اٹھانے کی ضرورت کو اجاگر کر دیا ہے۔

اس واقعے کے دو روز بعد سڈنی ہی کے ایک چرچ میں چاقو حملے کا ایک اور واقعہ رونما ہوا۔ ان دونوں واقعات کے بعد غیر سنسرشدہ بھیانک ویڈیوز سوشل میڈیا پر منظر عام پر آئیں جن میں حملہ آوروں سے متعلق مبہم اور غلط نظریات کا پرچار چلتا رہا۔ ان سب نے آسٹریلیا کی ای سیفٹی کمشنر جولی انمن گرانٹ کو مجبور کیا کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیز سے یہ سب معلومات ہٹانے کی درخواست کریں۔

اس کے جواب میں سابقہ ٹوئٹر اور موجود 'ایکس' کمپنی میں عالمی حکومتی امور کے اکاونٹ نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اس مواد کی نشریات سے متعلق اپنے حق کا دفاع کیا جائے گا۔ بیان میں مزید کہا گیا کہ ہر ملک کو اپنی جغرافیاتی حدود میں قانون کے اطلاق کا حق ہے لیکن کسی کو 'ایکس' پر حکم چلانے اور صارفین کے اس مواد کو دیکھنے سے متلعق حق پر اپنی پسند یا ناپسند چلانے کا حق نہیں۔

سڈنی کے حملوں سے متعلق ویڈیوز کو سوشل میڈیا سے ہٹانے کی درخواست کو خود 'ایکس' کے مالک ایلون مسک نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

تاہم آسٹریلیا میں حزب اختلاف اور حزب اقتدار کے سیاست دان ان کے اس رویے سے خوش نہیں۔

لیبر پارٹی کے وزیر کرس بوین کے بقول ایلون مسک قانون سے بالا نہیں۔

اپوزیشن کے رہنما پیٹر ڈٹن نے بھی اس مدعے پر غیر معمولی طور پر حکومت کے موقف کی حمایت کی ہے۔ اے بی سے کے پروگرام انسائڈرز پر بات چیت میں انہوں نے کہا کہ وہ اس معاملے پر حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کو تیار ہیں۔

اس سب کے بعد اب تمام تر توجہ حکومت کے غلط معلومات سے متعلق مسودہ قانون پر مبذول ہوچکی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل حزب اختلاف کی جانب سے حکومت کے اولین مسودہ قانون کی شدید مخالفت کی گئی تھی۔

اب حزب اختلاف کے رہنما کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار رائے اور سخت قوانین کے مابین حکومت کو ایک متوازن موقف اختیار کرنے کی ضرورت ہے۔

نیشنلز کے رہنما ڈیوڈ لٹلپراوڈ نے اس معاملے پر چینل نائن کو بتایا کہ ان کا موقف بھی اس سے ملتا جلتا ہے۔

حزب اختلاف کے رہنما پیٹر ڈٹن کا کہنا ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیز آسٹریلیا میں ملین ڈالرز کما رہی ہیں اور اسی لیے اس قانون کے اثرات خاصے اہم ہوسکتے ہیں۔

حکومت کی جانب سے عندیہ دیا جارہا ہے کہ وہ سوشل میڈیا کمپنیوں کے خوف سے بالاتر ہوکر سخت قوانین کا اطلاق چاہتی ہے۔

وزیر زراعت مرے واٹ کے بقول سڈنی کے واقعات کے بعد سوشل میڈیا سے متعلق گرما گرم بحث کے تناظر میں سخت قوانین کا اطلاق ممکن ہوسکے گا۔

ان کے بقول ایلون مسک کی جانب سے آسٹریلوی قوانین کا احترام نہ کرنا بھی غیر مناسب ہے۔

ایس بی ایس اردو پر آپ نے روٹ مکہیو ڈلن کی رپورٹ سنی شادی خان سیف کی زبانی

 

 

 


شئیر