کار مسیحائی کے لئے درکار نہیں کچھ اور:دونوں ہاتھوں سے معذور دوسرے معذور افراد کیلیے مسیحا بننے والا ارشد علی

Arshad ali

Credit: Supplied by urdu contributor Ehsan Khan

ایس بى ایس کی موبائیل ایپ حاصل کیجئے

سننے کے دیگر طریقے

اپنے ہاتھوں کو ایک حادثے میں کھو دینے والا دوسرے معذوروں کا سہارا بن گیا، یہ کہانی ہے ایک ایسے شخص کی جو خود تو دونوں ہاتھوں سے معذور ہے لیکن دوسرے معذور افراد کی زندگیوں میں ان کا ہاتھ بٹا رہا ہے،


ارشد علی گزشتہ کئی برسوں سے 12 ہزار سے زائد معذور افراد کو پاکستان بھر میں کسی نہ کسی انداز میں مدد فراہم کر چکے ہیں، ارشد علی کی اپنی زندگی بھی پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا ہار بنی ہوئی ہے لیکن اس کے باوجود انھیں ملک بھر سے کوئی بھی آواز لگائے وہ فورا مدد کو پہنچ جاتے ہیں، ارشد اپنے دونوں ہاتھوں سے کیسے معذور ہوا اور پاکستان بھر میں موجود معذور افراد کی مدد کرنے کا خیال انھیں کیوں آیا اور کس طرح وہ لوگوں کو مدد فراہم کرتے ہیں؟ یہ سب کچھ جاننے کیلیے ایس بی ایس اردو نے باہمت نوجوان ارشد علی سے خصوصی گفتگو کی ہے۔
voice of disables
Credit: Supplied by Ehsan Khan
ارشد علی ایک نارمل زندگی گزار رہے تھے کہ اچانک ان کی زندگی میں ایک نیا موڑ آیا کراچی کی مقامی الیکٹرک کمپنی میں کام کے دوران انھیں 11 ہزار وولٹ کا الیکٹرک شاٹ لگا جس سے ارشد علی اپنے دونوں ہاتھوں سے محروم ہوگئے، ایک خوشگوار زندگی نے اب ایک نیا موڑ اختیار کر لیا تھا، خاندان کو سپورٹ کرنے والا، شریک حیات اور اہلخانہ کیلیے کمانے والا، ہر کام میں پیش پیش رہنے والا ارشد اب خود محتاج ہو کر رہ گیا تھا۔

ارشد علی بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ اس حادثے کے بعد دوسروں کے سہارے زندگی گزرانے پر مجبور ہوگئے تھے، بڑے کام تو دور کی بات حتی کہ پانی پینے اور کھانا کھانے تک کیلیے دوسروں کے ہاتھوں کو دیکھنا پڑتا تھا، ارشد کے مطابق شروع میں اس طرح کی معذوری انتہائی مشکل لگ رہی تھی، یقین نہیں آرہا تھا کہ زندگی میں اتنا بڑا حادثہ ہوگیا ہے۔
voice of disables
Credit: Supplied by Ehsan Khan
معذورں کے مسیحا بننے والے ارشد علی کے مطابق ایک دن اُن کے پاس پنجاب کے شہر گجرات کے رہائشی ایک معذور شخص عبدالرحمان نے مدد فراہم کرنے کی درخواست کی، ارشد کے مطابق ان کے پاس اتنی رقم موجود نہیں تھی لہذا اس کام کیلیے انھوں نے دیگر لوگوں سے مدد لینے کا فیصلہ کیا، اس دوران کئی افراد نے یہ سمجھا کہ شاید میں یہ رقم اپنے لیے جمع کر رہا ہوں کچھ لوگوں نے منفی رد عمل دیا تاہم بیشتر افراد نے اس کارِخیر میں اپنا حصہ ڈالا، ایک شخص نے خود رابطہ کر کے مکمل رقم دینے کا کہا جس پر ہمت بندھ گئی کہ آج عبدالرحمان کی مدد کی ہے تو کل کسی اور کی بھی کر سکتا ہوں، اُس دن سے آج تک ہم 12 سے 15 ہزار افراد کو کسی نہ کسی حثیت میں مدد فراہم کر چکے ہیں۔

ارشد علی بتاتے ہیں کہ وہ اب ایک شخص سے ادارے میں بدل گئے ہیں، کئی افراد ان کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرنے میں پیش پیش رہتے ہیں، پاکستان کے کسی بھی شہر، قصبے یا دیہات سے کوئی بھی معذور شخص مدد کی درخواست کرتا ہے تو خود چل کر اس کے پاس جاتے ہیں، تصدیق کے بعد مخیر حضرات کے زریعے متاثرہ شخص کو مدد فراہم کر دیتے ہیں۔

دونوں ہاتھوں سے محروم ہونے والے ارشد علی کے خواب بھی بڑے ہیں کہتے ہیں پاکستان میں معذور افراد کی بہتری کیلیے کوئی نظام موجود نہیں، وہ اپنی مدد آپ کے تحت معذور افراد کیلیے ایک کیئر ہوم بنائیں گے جہاں جدید طرز زندگی کی تمام تر سہولیات میسر ہوں گی ، المناک حادثے کے تلخ لمحات کو یاد کرتے ہوئے ارشد علی نے کہتے ہیں کہ ’مجھےلگتا ہے کہ میرے ساتھ یہ حادثہ اس لیے ہوا کہ میں معذور افراد کے درد ، ان کی تکلیف کو سمجھ سکوں ، وہ افراد جو دوسروں کے محتاج ہیں ، ان کے پاس نہ تو وسائل ہیں اور نہ ہی کوئی زریعہ معاش، میری معذوری نے مجھے ایسے افراد کا سہارہ بننے کا راستہ دکھا دیا ہے۔‘

ارشد علی کہتے ہیں معذوری کی زندگی انتہائی مشکل زندگی ہے، جسے لفظوں میں بیان کرنا ممکن نہیں، مایوسی کفر ہے اس لیے اپنی تکلیف دہ زندگی کو بھولنا پڑتا ہے، معذوروں کا مسیحا بننے والے ارشد کہتے ہیں پاکستان میں چیریٹی کا کام کرنا انتہائی مشکل ہے ، لیکن میرا عزم ہے کہ ان تمام تر مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے معذور افراد کو مدد فراہم کرنے کا سلسلہ جاری رکھیں گے۔

(احسان علی کی رپورٹ)

شئیر